This Blog Explore Pakistani Lifestyle, Culture, Heritage, Traditions and Enlightens Hidden Beauty of Pakistan.
Tuesday, October 1, 2013
Raashid Minhas (Shaheed) Nishan-e-Haydar, Pakistan
راشد منہاس نے اپنی شہادت سے چند دن پہلے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا؛ ’’میں جنگی قیدی بننے سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘
ماموں کانجن: 20 اگست 1971 کی روشن صبح تھی۔ پاک فضائیہ کے تربیت پانے والے ہوابازوں کا ایک دستہ اپنی مشقی پرواز پر روانہ ہونے کے لیے تیار تھا۔
تمام ہواباز اپنے اپنے طیارے میں اگلی نشست پر پرواز کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ ’’رن وے‘‘ پر ایک موٹر نظر آئی جس میں ان ہوابازوں کو تربیت دینے والا استاد بیٹھا تھا، اس نے ایک طیارے کی طرف غور سے دیکھا جس میں خوب صورت آنکھوں والا، دُبلا پَتلا لیکن چُست بدن کا ایک نوعمر ہواباز اپنا طیارہ چلانے ہی کو تھا۔ استاد نے ہاتھ کے اشارے سے اسے رُکنے کا حکم دیا اور پھر بڑی پُھرتی سے طیارے کے قریب پہنچ گیا۔
نوعمر ہواباز استاد کے حکم پر رک گیا۔ استاد اس سے کچھ بات کرنے کے بعد اس کے طیارے میں بیٹھ گیا۔ یہ بڑی عجیب سی بات تھی کیوںکہ ایسی پروازوں پر تربیت پانے والے نوجوان اکیلے ہی جاتے ہیں۔ استاد نہ صرف کاک پٹ میں بیٹھ گیا بلکہ اس نے زبردستی طیارے کو اُڑانا شروع کردیا۔نوعمر ہواباز اس کی اس حرکت سے پہلے ہی حیران تھا اور اب تو اس کے ارادے صاف ظاہر تھے۔ وہ دراصل غدار تھا جو طیارے کو بھارت لے جانا چاہتا تھا۔
اس وقت وہ بھارتی سرحد سے صرف چونسٹھ کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ نوعمر ہواباز جو پہلے ہی سے چوکنا تھا، سب کچھ بھانپ گیا۔ اپنے سے دُگنے طاقت ور اور تجربہ کار استاد کو اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے اس کے پاس ایک ہی حربہ تھا۔ چناںچہ اُس نے پاک فضائیہ کے جاں باز افسروں کی روایت کے مطابق بڑے حوصلے اور سکون سے یہ حربہ استعمال کیا۔ اچھی طرح یقین کرلینے کے بعد کہ اب طیارے پر دوبارہ قابو پانا ممکن نہیں، اس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ گرکر تباہ ہوگیا۔ اُس وقت بھارتی سرحد صرف پچاس کلومیٹر دور رہ گئی تھی۔
اس طیارے کی تباہی اس کی شہادت کا بہانہ بن گئی لیکن اس کی شہادت نے ایک طیارے کے علاوہ فضائیہ کے خفیہ رازوں کو بھی بھارت کی سرحد میں داخل ہونے سے بچالیا۔ اس کارنامے پر حکومت پاکستان نے اس نوعمر ہواباز کو ’’نشان حیدر‘‘ کا اعزاز دیا جو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے اور صرف اُن لوگوں کو دیا جاتا ہے جو بہادری اور جرأت کے عظیم ترین کارنامے انجام دیتے ہیں۔ اُس نوعمر ہواباز کا نام راشد منہاس تھا۔ راشد منہاس پاک فضائیہ کے تربیتی ادارے میں ہوابازی کی تربیت پارہا تھا۔ اس طرح وہ ابھی طالب علم ہی تھا۔
راشد منہاس نے اپنی شہادت سے چند دن پہلے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا؛ ’’میں جنگی قیدی بننے سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘ اور چند ہی روز بعد اس نے اپنے عمل سے یہ بات ثابت بھی کردی۔ جس جگہ اس کم سن مجاہد کا طیارہ زمین سے ٹکرایا تھا وہ اب ’’شہید ڈیرا‘‘ کہلاتی ہے۔ پہلے اس کا نام ’’جَنڈے‘‘ تھا۔ یہ کراچی سے شمال مشرق کی جانب دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ساتھیو !!! اُس حادثے میں راشد منہاس اور اس کا استاد، دونوں ہی ہلاک ہوگئے لیکن ایک غدارِ وطن کہلایا جب کہ دوسرا کم سن شہید ’’نشان حیدر‘‘ کا مستحق ٹھہرا۔
ماموں کانجن: 20 اگست 1971 کی روشن صبح تھی۔ پاک فضائیہ کے تربیت پانے والے ہوابازوں کا ایک دستہ اپنی مشقی پرواز پر روانہ ہونے کے لیے تیار تھا۔
تمام ہواباز اپنے اپنے طیارے میں اگلی نشست پر پرواز کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ ’’رن وے‘‘ پر ایک موٹر نظر آئی جس میں ان ہوابازوں کو تربیت دینے والا استاد بیٹھا تھا، اس نے ایک طیارے کی طرف غور سے دیکھا جس میں خوب صورت آنکھوں والا، دُبلا پَتلا لیکن چُست بدن کا ایک نوعمر ہواباز اپنا طیارہ چلانے ہی کو تھا۔ استاد نے ہاتھ کے اشارے سے اسے رُکنے کا حکم دیا اور پھر بڑی پُھرتی سے طیارے کے قریب پہنچ گیا۔
نوعمر ہواباز استاد کے حکم پر رک گیا۔ استاد اس سے کچھ بات کرنے کے بعد اس کے طیارے میں بیٹھ گیا۔ یہ بڑی عجیب سی بات تھی کیوںکہ ایسی پروازوں پر تربیت پانے والے نوجوان اکیلے ہی جاتے ہیں۔ استاد نہ صرف کاک پٹ میں بیٹھ گیا بلکہ اس نے زبردستی طیارے کو اُڑانا شروع کردیا۔نوعمر ہواباز اس کی اس حرکت سے پہلے ہی حیران تھا اور اب تو اس کے ارادے صاف ظاہر تھے۔ وہ دراصل غدار تھا جو طیارے کو بھارت لے جانا چاہتا تھا۔
اس وقت وہ بھارتی سرحد سے صرف چونسٹھ کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ نوعمر ہواباز جو پہلے ہی سے چوکنا تھا، سب کچھ بھانپ گیا۔ اپنے سے دُگنے طاقت ور اور تجربہ کار استاد کو اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے اس کے پاس ایک ہی حربہ تھا۔ چناںچہ اُس نے پاک فضائیہ کے جاں باز افسروں کی روایت کے مطابق بڑے حوصلے اور سکون سے یہ حربہ استعمال کیا۔ اچھی طرح یقین کرلینے کے بعد کہ اب طیارے پر دوبارہ قابو پانا ممکن نہیں، اس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ گرکر تباہ ہوگیا۔ اُس وقت بھارتی سرحد صرف پچاس کلومیٹر دور رہ گئی تھی۔
اس طیارے کی تباہی اس کی شہادت کا بہانہ بن گئی لیکن اس کی شہادت نے ایک طیارے کے علاوہ فضائیہ کے خفیہ رازوں کو بھی بھارت کی سرحد میں داخل ہونے سے بچالیا۔ اس کارنامے پر حکومت پاکستان نے اس نوعمر ہواباز کو ’’نشان حیدر‘‘ کا اعزاز دیا جو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے اور صرف اُن لوگوں کو دیا جاتا ہے جو بہادری اور جرأت کے عظیم ترین کارنامے انجام دیتے ہیں۔ اُس نوعمر ہواباز کا نام راشد منہاس تھا۔ راشد منہاس پاک فضائیہ کے تربیتی ادارے میں ہوابازی کی تربیت پارہا تھا۔ اس طرح وہ ابھی طالب علم ہی تھا۔
راشد منہاس نے اپنی شہادت سے چند دن پہلے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا؛ ’’میں جنگی قیدی بننے سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘ اور چند ہی روز بعد اس نے اپنے عمل سے یہ بات ثابت بھی کردی۔ جس جگہ اس کم سن مجاہد کا طیارہ زمین سے ٹکرایا تھا وہ اب ’’شہید ڈیرا‘‘ کہلاتی ہے۔ پہلے اس کا نام ’’جَنڈے‘‘ تھا۔ یہ کراچی سے شمال مشرق کی جانب دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ساتھیو !!! اُس حادثے میں راشد منہاس اور اس کا استاد، دونوں ہی ہلاک ہوگئے لیکن ایک غدارِ وطن کہلایا جب کہ دوسرا کم سن شہید ’’نشان حیدر‘‘ کا مستحق ٹھہرا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)